ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ایک ذرا سی رُت بدلی تو سب کی سب اُس پار چلیں
اُمیدوں کی ٹھِٹھڑی کُونجیں کون سے دیس سُدھار چلیں
لے جائے کس اور نجانے عمر یہ بھُول بھلّیوں کی
کہنے کو کچھ دوشیزائیں مل کر ہیں بازار چلیں
ظاہر میں میدان سکوں کا جو اِس دل کے ہاتھ رہا
ٹِک ٹِک شور مچاتی گھڑیاں وُہ میدان بھی مار چلیں
ہر حیلہ ناکام رہا بیمار کی جان بچانے کو
چلنے کو تو رُک رُک جاتی سانسیں سو سو بار چلیں
جی داری کے فیض سے زندہ ہیں ورنہ ہر آنگن سے
طعن کی کیا کیا کنکریاں ہم پر بھی ماجدؔ یار چلیں
ماجد صدیقی