ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
دم توڑتی چیخوں کے مبہوت صداؤں کے
انداز کہیں، کیا کیا تیور ہیں خداؤں کے
اُٹھے تھے جو حدّت سے فصلوں کے بچانے کو
سایہ نہ بنے کیونکر وُہ ہاتھ دُعاؤں کے
کیا جانئیے بڑھ جائے، کب خرچ رہائش کا
اور گھر میں نظر آئیں، سب نقش سراؤں کے
ٹھہرے ہیں جگر گوشے لو، کھیپ دساور کی
بڑھ جانے لگے دیکھو، کیا حوصلے ماؤں کے
رودادِ سفر جب بھی، چھِڑ جانے لگی ماجدؔ
لفظوں میں اُترا آئے، چھالے تھے جو پاؤں کے
ماجد صدیقی