ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
آروں سے موج موج کے، کیا کیا نہ کٹ گئے
آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے
دیکھا ہمیں قفس میں، تو پوچھی نہ خیر بھی
جھونکے مہک کے آئے اور آ کر، پلٹ گئے
مُٹھی میں بند جیسے، مہاجن کی سیم و زر
کھیتوں کے حق میں ابر، کچھ ایسے سمٹ گئے
سیلاب نے جب اپنے قدم، تیز کر لئے
بادل بھی آسمان سے، اِتنے میں چھٹ گئے
جتنے ہرے شجر تھے، لرزنے لگے تمام
خاشاک تھے کہ سامنے دریا کے ڈٹ گئے
جانے نہ دیں گے، رزق کے بن باس پر کبھی
بچّے کچھ ایسے باپ سے ماجدؔ، چمٹ گئے
ماجد صدیقی