ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
منصبِ انسانی سے نیچے اترے کون
کُتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون
وہ کہ جو نیّتِ بد کے بطن سے پھوٹی ہو
تاب کسے ہے اُس دلدل میں الجھے کون
جز پت جھڑ کے اِس فن کا ادراک کسے
رنگ کسی کا جیسا بھی ہو بدلے کون
جسم پہ جس کے لباس ہو جھاڑ میں کانٹوں کے
حفظِ گلاب و سمن کی دُھن میں کودے کون
کون ہو جو خّرم ہو لہو میں نہا کر بھی
پیغمبر کے سوا طائف میں ٹھہرے کون
کام نہیں بس میں یہ دئیے کے ناخن کے
چہرۂ شب سے ماجدؔ ظلمت کھُرچے کون
ماجد صدیقی