ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دھڑکتی گونجتی اِک خامشی سی شہر میں ہے
پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے
لب و زباں پہ نہیں ہے، نظر نظر میں تو ہے
کوئی تو بات ہے جو اَن کہی سی شہر میں ہے
چھپا سکے نہ جسے کوئی بھی اَپَھل جوڑا
کچھ اِس طرح کی حزیں بیدلی سی شہر میں ہے
جھٹک رہے ہوں جسے آہوانِ رم خوردہ
وفورِ خوف میں وہ کھلبلی سی شہر میں ہے
ہُوا جو اُس کی خبر بھی ہے اور خبر بھی نہیں
چہار سُو یہی ناآگہی سی شہر میں ہے
دہک رہے ہیں گلابوں سے بام و در ماجد
جو آنچ میں ہو وہی تازگی سی شہر میں ہے
ماجد صدیقی