ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دینا
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا
ہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا
ماجد صدیقی
جواب دیں