ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے
تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے
ناز ہو ننّھی چڑیوں کے خوں پر جنہیں
اُن عقابوں سے تُو بال و پر چھین لے
جس کی بنیاد تیرے عرق سے اٹھی
اُس سپھل پیڑ سے برگ و بر چھین لے
نرم خُوئی تلک نرم خُو ہو، مگر
دستِ جارح سے تیغ و تبر چھین لے
حق ملے گا تجھے دشتِ وحشت میں کیا
چھین لے، چھین سکتا ہے گر، چھین لے
جس کا حقدار ہے تو وہ تکریمِ فن
تو بھی اے ماجدِ با ہنر! چھین لے
ماجد صدیقی
جواب دیں