ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
فن سے مرے کہ ہے جو فرازِ کمال پر
پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر
ہونٹوں پہ رقص میں وُہی رنگینی نگاہ
محفل جمی ہوئی کسی ٹیبل کی تال پر
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
ساڑھی کی سبز ڈال میں لپٹی ہوئی بہار
کیا کچھ شباب تھا نہ سکوٹر کی چال پر
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کُچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر
ماجد صدیقی
جواب دیں